Profile avatar
azad73.bsky.social
مولانا رومی ،خواجہ غلام فرید ،پیر وارث شاہ ،میاں محمد بخش،بلھے شاہ ، شاہ حسین استاد دامن ،ولی دکنی ،سراج اورنگ آبادی ،میر تقی میر،مرزا محمد رفیع سودا،میر درد،غلام علی ہمدانی مصحفی، ناسخ ، آزردہ ، غالب ،ریاض خیر آبادی ،شیفتہ ،مومن ،استاد داغ ،اقبال کا عاشق
504 posts 894 followers 914 following
Prolific Poster

بابا جی فرماتے ہیں جان والیا جان دی خیر ہووی جان لگیاں انج تے جائی دا نہیں جائیے دلاں دی سن سنا کے تے وہم کسے دے دل وچ پائی دا نہیں جے ہووے خطا تے بھلا دئیے جان بجھ کے دل ٹھکرائی دا نہیں قصور مندؔ سیانیاں آکھیا اے حساب سجناں نال مکائی دا نہیں بابا جی قصور مند

ہر کسے نوں کسے تے مان ہندا مان کسے نوں ودھیریاں پتراں دا دولت مال دا کسے نوں مان یارو کسے نوں مان اے گھوڑیاں شتراں دا عقل علم دا کسے نوں مان یارو کسے نوں مان ودھیریاں ٹکراں دا قصور مند نوں تیرا اے مان مولٰی ہر حالَ گزاردا اے شکراں دا بابا جی قصور مند

‏ یہ آنسو بے سبب جاری نہیں ہے ‏مجھے رونے کی بیماری نہیں ہے ‏نہ پوچھو زخم ہائے دل کا عالم ‏چمن میں ایسی گل کاری نہیں ہے ‏چمن میں کیوں چلوں کانٹوں سے بچ کر ‏یہ آئین وفاداری نہیں ہے ‏وہ آئیں قتل کو جس روز چاہیں ‏یہاں کس روز تیاری نہیں ہے ‏عاجز

کیا دل ہے کہ آرام سے اک سانس نہ لے ہے ‏محفل سے جو نکلے ہے تو خلوت میں جلے ہے ‏کلیم عاجز

جس دن کوئی غم مجھ پہ گزر جائے ہے پیارے چہرہ ترا اس روز نکھر جائے ہے پیارے اک گھر بھی سلامت نہیں اب شہر وفا میں تو آگ لگانے کو کدھر جائے ہے پیارے رہنے دے جفاؤں کی کڑی دھوپ میں مجھ کو سائے میں تو ہر شخص ٹھہر جائے ہے پیارے ہر چند کوئی نام نہیں میری غزل میں تیری ہی طرف سب کی نظر جائے پیارے عاجز

سجنوا دوارے میں جاؤں رے کیسے شرم موہے لاگے بتاؤں رے کیسے عمر یا گنوائی ہے سووت یا کھیلت پیا سے نجریا ملاؤں رے کیسے

خوب رویوں سے یاریاں نہ گئیں دل کی بے اختیاریاں نہ گئیں عقل صبرآشنا سے کچھ نہ ہوا شوق کی بے قراریاں نہ گئیں دن کی صحرا نوردیاں نہ چھٹیں شب کی اختر شماریاں نہ گئیں طرز مومنؔ میں مرحبا حسرتؔ تیری رنگیں نگاریاں نہ گئیں مولانا حسرت موہانی

اس نازنیں کی باتیں کیا پیاری پیاریاں ہیں پلکیں ہیں جس کی چھریاں آنکھیں کٹاریاں ہیں جاگا ہے رات پیارے تو کس کے گھر جو تیری پلکیں ندیدیاں ہیں آنکھیں خماریاں ہیں کیا پوچھتا ہے ہم دم احوال مصحفیؔ کا راتیں اندھیریاں اور اختر شماریاں ہیں مصحفی

ہو گا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے شاعر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے غالب

کعبے میں جاں بہ لب تھے ہم دوریٔ بتاں سے آئے ہیں پھرکے یاروابکے خدا کےہاں سے اتنی بھی بد مزاجی ہر لحظہ میرؔ تم کو الجھاؤ ہے زمیں سے جھگڑا ہے آسماں سے میر تقی میر

میر تقی میر کی ایک غزل

میر تقی میر کی ایک غزل کے دو اشعار

مولانا مودودی کی ایک تحریر

ایک شخص مجھی ساتھا کہ تھاتجھ سے پہ عاشق وہ اس کی وفا پیشگی وہ اس کی جوانی یہ کہہ کے میں رویا تو لگا کہنے نہ کہہ میر سنتا نہیں میں ظلم رسیدوں کی کہانی میر

مدرسے کے بچوں کو کوئی ہنر ضرور سکھانا چاہئیے اگر مدرسے کے فارغ التحصیل بچوں کے پاس ہنر نہ ہوا تو وہ دین بیچیں گے۔ مولانا ابوالکلام آزاد

تھا جوش و خروش اتّفاقی ساقی اب زندہ دِلی کہاں ہے باقی ساقی میخانے نے رنگ و روپ بدلا ایسا میکش میکش رہا، نہ ساقی ساقی مولانا ابوالکلام آزاد

مولانا آزاد اور تبلیغی جماعت پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک بار مولانا ابوالکلام آزاد سے کہا کہ تبلیغی جماعت والوں کو کہیں، اتنا بڑا مذہبی اجتماع بھارت جیسے سیکولر ملک میں نہ کیا کریں۔ جواب میں ابوالکلام رحمہ اللہ نے کہا پنڈت جی آپ بلاوجہ پریشان ہو رہے۔

مولاناآزاد اپنا سنِ پیدائش اس طرح بتاتے ہیں “یہ غریب الدّیار عہد، ناآشنائے عصر، بیگانہ خویش، نمک پروردہ ریش، خرابہ حسرت کہ موسوم بہ احمد، مدعو بابی الکلام 1888 ء مطابق ذوالحجہ 1305 ھ میں ہستی عدم سے اس عمد ہستی میں وارد ہوا اور تہمت حیات سے متہم۔“ اب لوگ اسطرح پیدا نہیں

‏’’ہمیں وہ اسلام نہیں چاہیے جو بوقتِ نکاح خطبہ اور بوقت نزع یٰسین پڑھنے کے کام آئے اور باقی تمام معاملاتِ زندگی میں یورپ کے دسترخوان کی چھوڑی ہوئی ہڈیوں پر گزارا کرے۔‘‘ امام الہند مولانا ابوالکلام آزادؒ

مونچھوں کو تاؤ دیتے،ہاتھوں میں سگریٹ کا کش لگائے یہ مولوی وقت کا امام ابوالکلام آزاد ہے آج کے دستار بند و دماغ بند مولوی اسے کبھی اپنا آئیڈیل قبول نہیں کریں گے ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم اور ہندو قوم کو تعلیم کے اس مقام تک پہنچایا کہ آج دنیاکے بڑی مائیکروسوفٹ کمپنیاں ان پر رشک کرتے ہیں

مولانا آزاد اور وائسرائے ہند ‏وائسرائے ہند مولانا ابو الکلام آزاد سے ملنے ان کی رہائش گاہ پر آئےمولانا آزاد کے ساتھ ترجمان بیٹھا ھوا تھا۔وائسرائے جو بھی بات کرتا ترجمان اسکا ترجمہ کرکے مولانا آزاد کو بتا دیتا تھا اور مولانا آزاد کی ہربات کا ترجمہ انگریزی میں کردیتا

مولانا ابوالکلام آزاد کی نثر نگاری ‏جب سے دیکھی ابو الکلام کی نثر ‏نظم حسرت میں کچھ مزا نہ رہا ‏حسرت موہانی ‏قرآن اگر اردو میں نازل ہوتا تو ابولکلام کی نثر میں نازل ہوتا ‏سجاد انصاری ‏مولانا آزاد اپنے طرز وانشا کے جس طرح موجد ہیں اسی طرح اس کے خاتم بھی ہیں مولانا عبدالماجد دریا آبادی

چراغ حسن حسرت کا عام شیوہ تھا کہ رمضان کے دنوں میں عرب ہوٹل میں چائے کی پیالی سامنے رکھ لیتے، چسکیاں لیتے رہتے اور روزے کے فضائل بیان کرتے جاتے۔ ان کے کمال کے سب معترف تھے اس لیے کوئی حرف گیری نہیں کرتا تھا۔ ( گوپال متل، لاہور کا جو ذکر کیا)

مولانا حالی نے ’’مقدمۂ شعر و شاعری‘‘ میں صرف غزل ہی کو برا بھلا نہیں کہا، بلکہ شاعری کی جملہ اصناف کو گھسیٹا اور صاف صاف لکھ دیاکہ یہ بالکل خرافات چیزیں ہیں، اگر قومی خدمت کے کام نہ آئیں۔ البتہ غزل پر زیادہ زور اس لیے صرف کیا کہ اس کٹر قسم کی عیاش صنف میں بگڑنے کے لچھن سب سے زیادہ تھے

سوشل میڈیا والوں کے پاس وقت نہیں ہوتا لیکن اگر ہو تو یہ ضرور پڑھیں کچھ تو خبر ہو کہ ہمارے بڑے کیا تھے

آسان حقیقی ہے نہ کچھ سہل مجازی معلوم ہوئی راہ محبت کی درازی اے عشق تری فتح بہرحال ہے ثابت مر کر بھی شہیدان محبت ہوئے غازی معلوم ہے دنیا کو یہ حسرتؔ کی حقیقت خلوت میں وہ میخوارہے جلوت میں نمازی مولانا حسرت موہانی

خو سمجھ میں نہیں آتی ترے دیوانوں کی دامنوں کی نہ خبر ہے نہ گریبانوں کی آنکھ والے تری صورت پہ مٹے جاتے ہیں شمع محفل کی طرف بھیڑ ہے پروانوں کی عاشقوں ہی کا جگر ہے کہ ہیں خرسند جفا کافروں کی ہے یہ ہمت نہ مسلمانوں کی یاد پھر تازہ ہوئی حال سے تیرے حسرتؔ قیس و فرہاد کے گزرے ہوئے افسانوں کی حسرت

کوچہ گردی میں جوانی جائے گی خاک ہو کر زندگانی جائے گی مٹ نہیں سکتا ہمارے دل کا داغ قبر میں بھی یہ نشانی جائے گی سچ ہے میری بات کا کیا اعتبار سچ کہوں گا جھوٹ جانی جائے گی حضرت دلؔ جب بڑھاپا آئے گا خیر مقدم کو جوانی جائے گی دل شاہجہاں پوری

در پردہ ستم ہم پہ وہ کر جاتے ہیں کیسے گر کیجے گلا صاف مکر جاتے ہیں کیسے آنےمیں توسو طرح کی صحبت تھی شب وصل دیکھیں گے پر اب اٹھ کے سحر جاتے ہیں کیسے وہ وقت تو آنے دے بتا دیں گے شہیدیؔ بن آئے کسی شخص پہ مر جاتے ہیں کیسے کرامت علی شہیدی

جگر مراد آبادی کی ایک مشہور زمانہ غزل

داستان غم دل ان کو سنائی نہ گئی بات بگڑی تھی کچھ ایسی کہ بنائی نہ گئی سب کو ہم بھول گئے جوش جنوں میں لیکن اک تری یاد تھی ایسی جو بھلائی نہ گئی کیا اٹھائے گی صبا خاک مری اس در سے یہ قیامت تو خود ان سے بھی اٹھائی نہ گئی جگر مرادآبادی

جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے جاں کالبدِ صورتِ دیوار میں آوے تب نازِ گراں مایگیٔ اشک بجا ہے جب لختِ جگر دیدۂ خوں بار میں آوے دےمجھکو شکایت کی اجازت کہ ستمگر کچھ تجھ کو مزہ بھی مرے آزار میں آوے کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یا رب اک آبلہ پا وادیِ پر خار میں آوے مرزا غالب

دکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالب دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں سونا سَوگند ہو گیا ہے غالب غالب