روک نہیں سکے
آواز دے کے دیکھا بارہا
لوٹ آئی صدا
اور منہ پر لگی تمانچے کی طرح
افسوس ٹھہر گیا تھا آنکھ میں ضد بن کر
وہ آنسو سا شخص نشتر کی طرح تجھے راس نا آیا کوئی بہانہ تیرا
تجھے سن نا سکا
جسے سنتی رہی ترنم کی طرح
کان میں شدید کرب سا درد ہےگالوں پہ زردی
تیری بے بسی پہ حاوی اک درد بے درد کی طرح
آواز دے کے دیکھا بارہا
لوٹ آئی صدا
اور منہ پر لگی تمانچے کی طرح
افسوس ٹھہر گیا تھا آنکھ میں ضد بن کر
وہ آنسو سا شخص نشتر کی طرح تجھے راس نا آیا کوئی بہانہ تیرا
تجھے سن نا سکا
جسے سنتی رہی ترنم کی طرح
کان میں شدید کرب سا درد ہےگالوں پہ زردی
تیری بے بسی پہ حاوی اک درد بے درد کی طرح
Comments