Profile avatar
mschma.bsky.social
162 posts 455 followers 438 following
Prolific Poster
Conversation Starter

محفلیں جہاں کی ہمیں راس ہی نا آئیں شاید یہ دنیا داری ہمیں نبھانی نہیں آئی

حق کی تلاش میں بھٹکا ہوا انسان کہیں ألجھا کہیں بکھرا کہیں ٹکرے ہوا انسان تیرے فضل وکرم پہ نظریں جمائے بیٹھا ہے بے بس لاچار خطاکار عبادت گزار انسان

عورت اور مرد کے بیچ ریسپکٹ کا رشتہ آپ لاکھ کوشش کر کے دیکھ لیں نہیں ہو سکتا

جے کر تیرا غم مناواں تے مر جاواں یا فیر تیرے تے مٹی پا پل۔پول جاواں پر توں کوئی پلن والی گل وی تے نئیں سیں توں ہی دس دے ہنڑھ میں کیڑے پاسے جاواں ہساں روواں نا کرلاواں بس تکدی جاواں لوکاں نو وکھان لئی کد تک ہسدی جاواں

اس نے مجھے مسیحا سمجھ لیا جبر میں نے کئی بار کہا مریض ہوں میں

کہنی ہے مجھ کو ایک بات آپ سے یعنی کہ آپ سے آپ کے شہر وصل میں لذت ہجر بھی گئی

حاسد پر جتنے مرضی احسان کر لو وہ دل سے ہمیشہ آپکا دشمن رہے گا

بیقدروں کو اپنا سایہ بھی میسر نا ہونے دیں تعلقات معاہدے نہیں ہوتے لہذا جو جہاں بچھڑنا چاہے اسے وہیں سپرد خدا کر دیں

ضمیر بیچ کر لشکر کے ساتھ کھڑے ہونے سے ضمیر بچا کر اکیلا کھڑاہونا لاکھ بہتر ہے

اختلاف ہمیشہ بہادر اور اصول پرست لوگ رکھتے ہیں مفاد پرست اور لالچی لوگ چمچہ گیری چاپلوسی میں زندگی گزار دیتے ہیں

آ دیکھ میری آنکھ کے پتھر بنے آنسو سمندر میں ڈوبا سنگ مرمر ہو جیسے

تیری قدرت سے محبت کی ہے ہم نےزندہ رہنے کی فقط کوشش کی ہے تیری پسند نا پسند کے بھنور میں مٹ کر ہم نے ناجانے کہاں کہاں پہ غفلت کی ہے خواہشوں کی سرد لاشوں پر چپ چاپ کھڑے ہو کر ہم نے اپنے لئے تجھ سے دعائے مغفرت کی ہے

مت دیکھ میری پیاس ابن آدم تو اپنی لہریں أٹھا اور چلتا بن

ہمارے مذہب میں ہیومن رائٹس سے متعلق اتنا آگاہ کردیا گیا ہےکہ میرا نہیں خیال مزید کچھ گنجائش باقی ہےجس مذہب میں اگر آپ اچھا کھا رہے ہیں تو اسکی تشہیر منع ہے خوشبو تک نا پہنچے کسی ایسے کی طرف جسے وہ چیز میسر نہیں اچھا پہن رہے ہیں تو عاجزی انکساری پر توجہ دیں

رستہ ہے نا راہ گزر جانے وہ ملیں کدھر زندگی مسلسل سفر تھکا ہارا تنہا مسافر

تیرے بندوں کے بنائے گناہ گار کا کیا ہو گا مالک جو تیری طلب مٹا دے اس پرہیزگار کا کیا ہو گا مالک تیری عبادت میں ڈوبا ہوا شخص اگر کئی مسافروں کا شوق سفر مٹا دے ایسے اعلی افکار کے علم دار کا کیا ہو گا مالک لوگ کب سے اک دوجے کو مرتا ہوا دیکھ رہے ہیں سجدہ ریز کلیجے چبانے والے کا کیا ہو گا آخر

گاڑ دیئے گئے ہیں زمین میں کچھ اسطرح چھاؤں دیکر دھوپ سہیں گے عمر بھر

اڑتی ہوئی دھول گرد آلود فضا کچھ بھی تو دکھائی نہیں دیتا بند کھڑکیاں دروازے حبس بے بہا زندگی تو نہیں لگتی یہ قبر ہے کیا

یوں تو ہیں مقدر کے سکندر آپ پر حرکتیں ہیں خانہ خرابوں والی

برسے جو بارش تو ان آنسوؤں کو پناہ ملے گی گر بادل گرج جائیں توسسکیوں کو راہ ملے گی

میں اعتماد ہوں آپ مجھ پہ عدم اعتماد کر سکتے ہیں مخلص اور مختصر ہوں آپ سزا دے سکتے ہیں اتنی سخت دھوپ ہے دنیاداری میرا تو سایہ بھی نہیں نظر آتا کتنا اچھا ہے میرے رب کا فیصلہ آپ مجھے رد کر سکتے ہیں

بے تکلفی میں بھی تکلف برتتے رہے ہمیشہ تھوڑا سا ناز بھاری رہابہت سارے غم پر

حسد بغض سے پاک ہوں میں اپنے لئے خاص ہوں

بڑے سکون سے ہر شخص اک عذاب میں ہے

سن۔منافقت تجھ سے نفرت ہے

میں دعا بدست ہوں اے خدا کوئی خاص شے مجھے عام دے

سنو۔بے سبب اداس ہوتا نہیں کوئی یونہی تو بد حواس ہوتا نہیں کوئی زخم روح تک چیر جائیں جبھی تو گھٹ گھٹ کے دن رات روتا ہے کوئی

تیرے حال پہ تیرے خیال پہ تجھے ناز تھا تو وہ تھا۔۔۔۔۔غلط

اب ضد نا کر دل بے خبر کہ پس ہجوم ستم گراں ابھی کون تجھ سے وفا کرے ابھی کس کو فرصتیں اسقدر کہ سمیٹ کر تیری کرچیاں تیرے حق میں خود سے دعا کرے

روک نہیں سکے آواز دے کے دیکھا بارہا لوٹ آئی صدا اور منہ پر لگی تمانچے کی طرح افسوس ٹھہر گیا تھا آنکھ میں ضد بن کر وہ آنسو سا شخص نشتر کی طرح تجھے راس نا آیا کوئی بہانہ تیرا تجھے سن نا سکا جسے سنتی رہی ترنم کی طرح کان میں شدید کرب سا درد ہےگالوں پہ زردی تیری بے بسی پہ حاوی اک درد بے درد کی طرح

کانچ کے ٹکروں پہ دم توڑتی خواہشیں بے چین سی راحتیں بے سبب سی وہ سلوٹیں پتھرائی آنکھوں میں جمے برف جیسے خواب نیند کی تلاش میں بھٹکا ہوا وجود خوش ہوں کہ یہ سب فانی ہے چند لمحوں کی بے ضرر کہانی ہے

افسوس کہ ہم اس دور میں داخل ہو رہے ہیں جہاں مسائل کو حل سمجھا جا رہا ہے اور حل کو مسلہ بنایا جا رہا ہے سلیوشن کو پلیوشن میں بدلا جا رہا ہے

پوچھتے ہیں تیری شناخت ہے کیا میں نے مسکرا کر نظر جھکا کر جوتوں پہ لگی دھول کو دیکھا یہی تو ہے ابتدا سے انتہا تک

میرے بچپن کا وہ خواب اب تک خواب ہے کیا میرے سینے میں دفن مقبرے میری اپنی ہی کوئی کتاب ہے کیا جب سمجھا نہیں جانا نہیں پہچانا نہیں پھر بھی جواب طلب میرا حساب ہے کیا باتوں باتوں میں ہر بات تو کر لی میں نے نامکمل زمانے کا نصاب ہے کیا میرے آس پاس نظر آ رہے ہیں جو میرے ساتھ بھی وہ احباب ہیں کیا

خاموشی میں ایسی وحشت دیکھی تمام عمر روبرو دشمنی دیکھی

وہ تو کچھ ہو گئی الفت سی آپ سے ورنہ ہم وہ خود سر ہیں کہ اپنی بھی تمنا نا کریں